وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور اس سے پہلے (ف 2) تو نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لکھتا تھا اگر ایسا کرتا ہوتا تو اس وقت البتہ یہ جھوٹے شبہ کرسکتے تھے
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے نبی! تم اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اپنی عمر کاایک بڑا حصہ ان میں گزار چکے ہو۔ انھیں خوب معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ پڑھے لکھے نہیں۔ ساری قوم اور سارا ملک بخوبی علم رکھتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض اُمی ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ پڑھنا۔پھر آج جو آپ ایک انوکھی، فصیح و بلیغ اور پراز حکمت کتاب پڑھتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں ۔ خود تصنیف و تالیف کرنہیں سکتے ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یہی صفت اگلی کتابوں میں مذکور تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’جو لوگ پیروی کرتے ہیں اس اُمی نبی رسول کی جس کی صفات وہ اپنی کتاب توراۃ اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں جو انھیں نیکیوں کاحکم کرتاہے اور برائیوں سے روکتاہے۔‘‘ لطف یہ ہے کہ اللہ کے معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لکھنے سے دور ہی رکھے گئے ۔ ایک سطر کیا، ایک معنی، ایک حرف بھی لکھناآپ کو نہ آتاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب مقرر کر لیے تھے جو وحی الٰہی کو لکھ لیتے تھے اور ضرورت کے وقت بادشاہوں سے خط وکتابت بھی وہی کرتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے پڑھنے کاعلم ہوتا اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ کو کتابیں پڑھتے،مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھاہوتاتو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہوبھی سکتی تھی ۔ پس ان لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔