وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ
اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں تھا جب تک کہ ان کے بڑے شہر میں ایک رسول نہ بھیجے جو ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھے اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے ۔ جب تک کہ وہاں کے لوگ ظلم اختیار (ف 1) نہ کریں
تیسرا جواب: یعنی اتمام حجت کے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ اُمِّھَا (بڑی بستی ) کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں اتابلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کی ذیل میں اجاتے رہے ہیں۔ یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر وشرک پر اپنااصرا رجاری رکھتے تو پھر انھیں ہلاک کردیاجاتا۔ یہی مضمون سورۃ ہود ( ۱۱۷) میں بھی بیان کیاگیاہے۔ بس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو تمام جہان کے لیے عام کردیا اور مکے میں جو تمام دنیا کامرکز ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرماکر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کردی۔ بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیا ہ وسفید کی طرف نبی بنا کربھیجا گیاہوں۔ (بخاری: ۴۹۸، مسلم: ۷۱۲) اس لیے نبوت ورسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا۔ لہٰذا ے اہل مکہ ! تمہارا یہ خیال کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔