فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ
سو جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا تو یوں کہنے لگے کہ اس (رسول) کو وہ چیز کیوں نہ ملی تھی جو موسیٰ کو ملی کیا وہ لوگ اس چیز کے جو پہلے موسیٰ کو ملی تھی منکر نہیں ہوچکے ہیں ! کہتے ہیں کہ تورات اور قرآن دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے معافق ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تو دونوں کو نہیں مانتے
ہدایت کے لیے معجزات ضروری نہیں: اب جو کفار مکہ کے پاس ہمارا رسول آیاہے اور اپنے ساتھ ہدایت کی کتاب بھی لایاہے تو انہوں نے یہ کہناشروع کردیاکہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح کے معجزات جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ اسے کیوں نہیں دیاگیا۔ یا یہ کتاب تختیوں کی صورت میں نازل کیوں نہیں ہوئی۔ یعنی مطلوبہ معجزات اگر دکھا بھی دیے جائیں تو کیا فائدہ، جنھیں ایمان نہیں لانا ہے وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے کیا انہوں نے کفر نہیں کیا تھا؟ یہ دونوں جادو ہیں (تورات اور قرآن): اس جملہ کے کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کہنے لگی کہ موسیٰ اور ہارون علیہما السلام دونوں جادوگراور ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ جب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقائد میں کئی امور میں مماثلت پائی جاتی ہے یعنی یہ دونوں فرقے بتوں کی عبادت سے بیزار اور اسے شرک اور کفر سمجھتے ہیں۔ آخرت پر دونوں ہی ایمان رکھتے ہیں۔ مسلمان اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں تو کئی منصف مزاج یہوداس نبی کو برحق سمجھتے ہیں تو یہ کافر کہنے لگتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلا م اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں جادوگر اور ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تورات اور قرآن دونوں کھلا ہواجادو ہیں کیونکہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسری کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ لہٰذا نہ ہم تورات پر ایمان لاتے ہیں نہ انجیل پر اور نہ قرآن پر یہ کتابیں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کتاب ہمارے مطلب کی ترجمانی نہیں کرتی ۔ لہٰذا ان میں سے کوئی کتاب ہی قابل قبول نہیں۔