سورة القصص - آیت 13

فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر (ف 1) ہم نے موسیٰ کو اس کی والدہ کی طرف پہنچا دیا ۔ تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور تاکہ اسے معلوم ہو کہ بےشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ لیکن بہت لوگ نہیں جانتے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدناموسیٰ علیہ السلام کی اپنی ماں کے پاس واپسی: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا تو فرعون نے والدہ موسیٰ علیہ السلام سے محل میں رہنے کی استدعاکی تاکہ بچے کی صحیح پرورش اور نگہداشت ہوسکے۔ لیکن انہوں نے کہاکہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایاکہ بچہ کو اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انھیں شاہی خزانے سے دی جائے گی۔ سبحان اللہ !اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں۔ رب نے موسیٰ علیہ السلام کو واپس لوٹانے کاوعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ (فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ) ایک مرسل روایت میں ہے کہ ’’اس کاریگری کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیزمیں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتاہے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اُجرت بھی وصول کرتی ہے ۔(ابی داؤد: ۲۰۱۲) اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے: یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کاعلم ہوتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَسٰى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ﴾ (البقرۃ: ۲۱۶) ہوسکتاہے کہ جس چیز کو تم بُرا سمجھو اس میں تمہارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو اس چیز میں تمہارے لیے شر کا پہلو ہو۔ اور ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿فَعَسٰى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ يَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا﴾ ’’ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو بُرا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لیے خیر کثیر پیدا فرما دے۔‘‘ اس لیے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسندوناپسندسے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پابندی کرے کہ اسی میں اس کے لیے خیراورحسن انجام ہے۔یعنی اللہ کے کئے ہوئے وعدے بہرحال پورے ہوکررہتے ہیں خواہ ان کے امکانات بالکل معدوم نظرآرہے ہوں۔یایہ کہ اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔جومکمل طورپراللہ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔اوراکثرلوگ یہ نہیں جان سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کون کون سے راستے اورکون کون سے مراحل طے کرتے ہوئے پورے ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے تو بہت سے کامل انسان گزرے ہیں لیکن عورتوں میں سے دو ہی کمال کو پہنچی ہیں۔ (۱)عمران کی بیٹی مریم[ اور (۲) فرعون کی بیوی آسیہ۔ (بخاری: ۳۷۶۹)