وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ
اور تو اپنا عصا ڈال پھر جب اس کو اس طرح ہلتے دیکھا جیسا سانپ تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر بھاگا وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ اے موسیٰ مت ڈر بےشک میں جو ہوں میرے پاس پیغمبر (ف 2) نہیں ڈرتے
نبی کو نبوت سے پہلے اپنے نبی بننے کا علم نہیں ہوتا۔ اس آیت سے کئی امور پر روشنی پڑتی ہے مثلاً سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سانپ بن جانے کا معجزہ آپ کو سب سے پہلے اسی مقام پر عطا ہواتھا۔ دوسرا طبعی خوف پیغمبر کو بھی لاحق ہوسکتاہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، موسیٰ علیہ السلام کو قطعی طور پر علم نہ تھاکہ آپ کو نبوت عطا ہوگی اور نبوت یا رسالت عطا ہونے کے وقت طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور کچھ نا معلوم سا خطرہ محسوس ہونے لگتاہے۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی غار حرا میں ایسا خوف لاحق ہواتھااسی لیے اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ’’رسول میرے حضور ڈرا نہیں کرتے۔ ‘‘