يَا مُوسَىٰ إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے موسیٰ بات یہ ہے کہ میں اللہ غالب حکمت والا ہوں (ف 1)
اس منظر نے اور اس آواز نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تو پھر آوازآئی ۔ موسیٰ ! میں ہی اللہ ہوں، زبردست ہوں، حکمت والاہوں اور یہاں سبحان اللہ کہنے سے مقصود یہ تھاکہ اللہ رب العالمین ایسا نہیں جو اس درخت میں یا آگ میں موجود ہو یا ان میں حلول کرآیا ہو۔ حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے ) کو نور (روشنی ) اور ایک اور روایت میں نار(آگ ) سے تعبیر کیاگیاہے اور فرمایاگیاہے کہ ’’اگر اپنی ذات کو بے نقاب کردے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ۔ ‘‘ (مسلم: ۱۷۹) اور اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس درخت یا آگ میں اللہ حلول کیے ہوئے ہے جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں، بلکہ یہ مشاہدہ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیاء علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتاہے۔ کسی فرشتے کے ذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی اور ہم کلامی سے، جیسے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایاہے ۔ (وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا )