إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
جو خدا کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے اور لوگوں میں سے ان کو قتل کرتے ہیں جو انصاف کرنے کو کہتے ہیں ، ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دے ۔ (ف ١)
یہود کی سرکشی اور بغاوت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی نہیں بلکہ ان عدل و انصاف کرنے والوں کو بھی ناحق قتل کردیتے تھے جو بُرائی سے روکتے اور نیک کاموں کی طرف بلاتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان مخلص لوگوں کا تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کردی ۔ بنی اسرائیل نے ۴۳ پیغمبروں کو ایک ہی دن صبح کے وقت قتل کیا۔ جب یہ لوگ اتنے انبیاء قتل کرچکے تو اللہ سے ڈرنے والوں نے ان کے اس مذموم فعل پر سخت احتجاج کیا۔ تو انھوں نے ان صالحین میں سےبھی 170سرکردہ آدمیوں کو اسی شام قتل کردیا یہ وہ لوگ تھے جو ان کو بُری حرکتوں سے روکتے اور انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اصل سبب انبیاء کے قتل کا وہی ان کا اپنا جاہ و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا اس لیے انھوں نے اپنی سرداریاں اور بڑائیاں بحال رکھنے کے لیے انبیاء اور صالحین کو قتل کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ انبیاء کا قتل گناہ کبیرہ ہے ۔ سیّدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’قیامت کے دن سب سے سخت عذاب کس کو ہوگا؟ آپ نے فرمایا: جس نے کسی پیغمبر کو قتل کیا یا اچھی بات کہنے والے اور بُری بات سے منع کرنے والے کو۔‘‘(مسند احمد: ۱/۴۰۷، ح: ۳۸۶۸۔ مجمع الزوائد: ۵/ ۲۳۶) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں بہت سی احادیث سنائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس قوم پر اللہ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو اللہ کے رسول کو قتل کریں۔‘‘ (مسلم: ۱۷۹۳)