وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا
اور وہی ہے جس نے دو دریابنائے (بحیرہ روم بحرہ فارس ) یہ شیریں پیاس بجھانے والا ہے اور یہ کھاری کڑوا ہے اور ان کے درمیان آڑا اور مضبوط بند رکھ دیا ہے
اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کر دیا ہے، میٹھا اور کھاری، نہروں چشموں اور کنوؤں کا پانی شیریں، صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کر دی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے اور اپنے کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی ہو۔ پھر مشرقوں اورمغربوں میں محیط کھارے پانی کے سمندر اس نے بہا دئیے جو ٹھہرے ہوئے ہیں ادھر ادھر نہیں بہتے لیکن موجیں مار رہے ہیں اور تلاطم پیدا کر رہے ہیں، کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کر دیتا ہے۔ تاکہ انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے۔ اس میں جو جانور مر جاتے ہیں، ان کی بدبو دنیا والوں کو ستا نہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اس کا مردار پاک اور طیب ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کر لیں؟ تو آپ نے فرمایا، اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔ (ابو داؤد: ۸۳) مالک، شافعی اور اہل سنن نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد بھی صحیح ہے۔ پھر اس کی اس قدرت کو دیکھو کہ محض اپنی طاقت اور اپنے حکم سے ایک کو دوسرے سے جدا کر رکھا ہے نہ کھارا میٹھے میں مل سکے نہ میٹھا کھارے میں مل سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۔ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ﴾ (الرحمن: ۱۹۔ ۲۱) ’’اس نے سمندر جاری کر دئیے ہیں کہ دونوں اس حال میں مل رہے ہیں کہ ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کے منکر ہو۔‘‘