فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
وہ چراغ ان گھروں میں ہے جن کے بلند کرنے کا حکم خدا نے دیا ہے اور یہ کہ ان میں اس کا نام لیا جائے خدا کی ان گھروں میں صبح وشام تسبیح کرتے ہیں ۔
مومن کے دل سے مماثلت: جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو، اور اس میں جو ایمان و ہدایت اور علم ہے۔ اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی ہے۔ جو شیشے کی قندیل میں ہے اور جو صاف شفاف تیل سے روشن ہو، تو اب اس کی جگہ بیان کی جا رہی ہے کہ یہ قندیلیں ایسے گھروں میں ہیں جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔ مراد مسجدیں ہیں جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ جہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس کی توحید بیان کی جاتی ہے۔ جن کو پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال و افعال سے بچانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا مطلوب نہیں ہے۔ بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زر نگار اور زیادہ آراستہ، پیراستہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں اسے قرب قیامت کی علامات میں سے بتلایا گیا ہے۔ (ابو داؤد: ۴۴۹) علاوہ ازیں، مسجدوں میں تجارت و کاروبار اور شور و شغب کرنا ممنوع ہے، کیونکہ یہ باتیں مسجد کے اصل مقصد یعنی عبادت کے منافی ہیں۔ اسی طرح اللہ کا ذکر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صرف ایک اللہ کا ذکر کیا جائے، اسی کی عبادت کی جائے اور صرف اسی کو مدد کے لیے پکارا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: ۱۸) ’’مسجدیں، اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہشت میں گھر بنا دیتا ہے۔ (بخاری: ۴۵۰) ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص با وضو ہو کر اپنے گھر سے نکلتا ہے اس کو حج کا احرام باندھنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (ابو داؤد: ۵۵۸)