وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں ، اور ان کے پاس خود اپنی جانوں کے اور گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی کی گواہی ہے کہ اللہ کی قسم کھا کر چار دفعہ گواہی دے ، کہ مقرر وہ سچوں میں ہے ۔
ان آیات میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی (خولہ بنت عاصم) کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال سے فرمایا: ’’(چار) گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد قذف پڑے گی۔‘‘ ہلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یا رسول اللہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی سے بدکاری کرتے دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے؟ (یہ تو بہت مشکل کام ہے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے: ’’گواہ لاؤ ورنہ حد پڑے گی۔‘‘ ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے متعلق کوئی ایسا حکم نازل کریں گے جس سے میری پشت کو سزا سے بچا لیں گے۔ اس کے بعد جبرائیل اترے اور ((وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ)) سے لے کر ((مِنَ الصَّادِقِیْنَ)) تک آیات نازل ہوئیں۔ بعد ازاں آپ نے ہلال کی بیوی کو بلا بھیجا۔ (پہلے) ہلال نے لعان کی گواہیاں دیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ فرما رہے تھے: ’’دیکھو تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے، اور جو جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے کہ نہیں؟‘‘ ہلال کے بعد اس کی بیوی کھڑی ہوئی اس نے چار گواہیاں دے دیں جب پانچویں کا وقت آیا تو لوگوں نے اسے ٹھہرایا (اور سمجھایا) کہ ’’یہ پانچیوں گواہی تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے گی۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر وہ عورت ذرا جھجھکی اور رکی اور ہم سمجھے کہ وہ اقرار کر لے گی مگر وہ کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو تمام عمر کے لیے رسوا نہیں کر سکتی، پھر پانچویں گواہی بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھتے رہو اگر اس عورت کا بچہ کالی آنکھوں، موٹے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا نطفہ ہو گا، چنانچہ اس عورت کے ہاں اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اللہ کا حکم (لعان) نازل نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کو ٹھیک سزا دیتا۔‘‘ (بخاری: ۴۷۴۷) سہل بن عدی راوی ہیں کہ عویمر عاصم بن عدی کے پاس آئے جو عویمر کے قبیلہ ’’بنی عجلان‘‘ کے سردار تھے اور ان سے پوچھا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم لوگ بھی اس کو (قصاص میں) مار ڈالو گے پھر وہ کیا کرے؟ عاصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالات کو برا سمجھا (اور خاموش رہے) پھر جب عویمر نے عاصم سے اپنے مسئلہ کا جواب پوچھا تو کہنے لگے میں تو ایسا مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہ پوچھوں گا۔ آخر عویمر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو کیا کرے اس کو مار ڈالے تو آپ اس کو (قصاص) میں مار ڈالیں گے۔ پھر آخر کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تیرے اور تیری بیوی کے باب میں قرآن (میں حکم) نازل کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی کو لعان کرنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ قرآن میں حکم نازل ہوا تھا۔ عویمر نے اپنی بیوی سے لعان کرنے کے بعد کہا: یا رسول اللہ! اگر اب میں اس عورت کو رکھوں تو میں ظالم ہوں۔ چنانچہ عویمر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بعد میں ایسے لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا۔ لعان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھتے رہو اس عورت کا جو بچہ پیدا ہو، اگر وہ سانولا، کالی آنکھوں اور بڑے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا ہو تو میں سمجھوں گا عویمر نے اپنی بیوی کے متعلق سچ کہا اور اگر یہ بچہ گرگٹ کی طرح سرخ رنگ کا پیدا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق عویمر سچا نکلا۔ چنانچہ اس بچہ کا نسب اس کی ماں سے ملایا گیا۔ (بخاری: ۵۲۵۹) (راوی کہتے ہیں) یہ لعان مسجد میں ہوا اور میں وہاں موجود تھا۔ (مسلم: ۱۴۹۲) لعان بہت پیچیدہ مسائل کا حل ہے: جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر مرد کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود تو عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لیے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے اس لیے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی، لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بدچلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لیے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا یہ حل پیش کیا ہے کہ یہ شخص حاکم مجاز یا عدالت کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے یا یہ بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ گر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔ پھر اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائے گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کی جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے جو ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ احادیث سے ماخوذ لعان کے متعلق احکام: (۱) اگر کوئی شخص کسی غیر عورت پر تہمت لگائے تو اس کا فیصلہ شہادتوں کی بنا پر ہو گا اور اگر اپنی ہی بیوی پر الزام لگائے تو اس کا فیصلہ لعان کی صورت میں ہو گا جیسے ان آیات میں مذکور ہے۔ (۲) لعان تفریق زوجین کی سب سے سخت قسم ہے جس کے بعد فریقین میں کبھی دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ (۳) قسم کھانے کے دوران قاضی فریقین کو اللہ سے ڈر کر صحیح بات کہنے کی تلقین کرتا رہے اور اگر ایک فریق یعنی خاوند اپنے دعویٰ سے رک جائے تو اس پر حد قذف لگے گی اور مرد کے قسمیں کھانے کے بعد اگر عورت رک جائے تو ظاہر ہے اس نے اپنے زنا کے جرم کا اعتراف کر لیا۔ اس صورت میں اسے رجم کیا جائے گا۔ عذاب سے مراد یہی سزا ہے۔ (۴) لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان دونوں میں ہمیشہ کے لیے جدائی ازخود واقع ہو جاتی ہے۔ (۵) لعان کے بعد مرد عورت سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ (۶) لعان کے بعد عدت کے دوران عورت کا نان و نفقہ یا رہائش مرد کے ذمہ نہ ہو گا۔ (۷) پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اسے متہم زانی کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔ (۸) پیدا ہونے والا بچہ ماں کا وارث ہو گا اور ماں بچہ کی اور وضع حمل کے بعد اگر عورت مجرم ثابت ہو جائے تو بھی اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔