يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جس وقت ان پر چمکتی ہے تو وہ اس میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کے لے جائے ، بیشک خدا ہر شے پر قادر (ف ١) ہے ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی قسم کے منافقوں كا جن کے دلوں میں کفر ہی کفر تھا، نورِ بصارت سلب کرلیا تھا اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے گونگا، بہرا اور اندھا بناسکتا تھا۔ انھیں جب اسلام میں آسانی میسر آتی تو اسلام کی طرف راغب ہوجاتے اور جب سخت احکام نازل ہوتے تو وہیں ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ۔ مگر اللہ کا یہ دستور نہیں، جو کسی حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہو اُسے اتنا بھی دیکھنے اور سننے نہ دے یہ منافقین جس قدر حق دیکھنے اور سننے کے لیے تیار تھے اس قدر سماعت اور بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: منافقین کا روشنی میں چلنا یعنی حق کو پہچان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہرجانا یہ کفر کی طرف لوٹنا ہے بعض لوگ وہ ہیں جو کنارے پر کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر برائی ملے تو اسی وقت پھر جاتے ہیں۔