سورة المؤمنون - آیت 14

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر نطفہ کو لہو کی پھٹکی بنایا ، پھر پھٹکی کر بوٹی بنایا ، پھر ہم نے بوٹی کو ہڈیاں بنایا ، پھر ہڈیوں کو گوشت پہنایا ، پھر ہم اسے ایک دوسری صورت میں لائے ، سو بڑی برکت والا ہے اللہ جو سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسان کی اندرونی کائنات: اللہ تعالیٰ نطفہ اور بے جان گوشت کے لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ہڈیوں میں تبدیل کرنے کا مقصد انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی صلاحیت اور سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا تو انسان میں وہ حسن ورعنائی نہ آتی جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لیے ان ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔ تاکہ اس کے قد وقامت میں غیر موز ونیت اور بھدا پن نہ پیدا ہو۔ بلکہ وہ حسن وجمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہکار ہو، اسی چیز کو قرآن میں سورئہ التین میں یوں بیان فرمایا: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ (التین: ۴) ’’ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا۔‘‘ یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ گویائی، نہ چلنے یا بیٹھنے کی طاقت، نہ عقل وخرد نہ کوئی اور خوبی، مگر وہ رحم مادر سے باہر آکر کوئی اور ہی چیز بننا شروع ہو جاتا ہے، تھوڑی ہی مدت میں وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق بچہ بن جاتا ہے اور یہ ساری خوبیاں اسے رب تعالیٰ عطا فرمایا ہے۔ اب اگر انسان ذرا سا بھی غور کرے کہ کس طرح ایک حقیر پانی کی بوند سے اس کی زندگی کا آغاز ہوا اور مختلف مراحل طے کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنا دیا تو بے اختیار اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل آتے ہیں: فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ ’’یعنی اللہ تعالیٰ ذات مقدس کس قدر خیر وخوبی اور حکمتوں اور قدرتوں والی ہے۔ جس نے انسانی تخلیق کا آغاز مٹی یا نطفہ سے کیا پھر مختلف مراحل طے کرا کر محیر القول طریقوں سے اسے ایک باشعور، صاحب ارادہ واختیار انسان بنا دیا، پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔