مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ان کی مثال جو راہ خدا میں اپنے مال خرچ خرچ کرتے ہیں ، اس دانہ کی مثال ہے جس سے سات بالیں اگیں ۔ اور ہر بال میں (١٠٠) سودانے ہوں ، (ف ٢) اور خدا جس کے لئے چاہے بڑھاتا ہے ، اور خدا کشائش والا ہے سب جانتا ہے ۔
صدقہ کا اجر کیسے گھٹتا اور بڑھتا ہے: اس بیان كردہ مثال میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اجر عطا کرے گا۔ ایسی مثال جس کو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اُگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہوسکتے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اُس کو بڑھاتا ہے وہ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔ حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا: بیج یا دانہ جس قدر قوی ہوگا تندرست ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یادانہ انسان کی نیت ہے۔ نیت جس قدر خالص اور اللہ کی رضا کے لیے ہوگی اسی قدر صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ انبیاء نسل انسانی کے کاشت کار ہیں اس کے بعد یہ فریضہ امت مسلمہ کا ہے کہ وہ مسلسل انفاق کرنے کی کوشش کرتے رہیں: اللہ کی راہ میں دل کی پاکیزگی سے دیا ہوا انفاق اجر بڑھاتا ہے صدقہ کرکے جتانا نہیں چاہیے۔ کسی کو ایذا نہ دی جائے۔ کسی سے توقع نہ رکھی جائے۔ ورنہ صدقہ ضائع ہوجائے گا۔ ایك حدیث میں ہے كہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم میری راہ میں خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔‘‘ (بخاری: ۴۶۸۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو كوئی اللہ كی راہ میں كوئی نفقہ دے تو اس كا اجر سات سو گنا تك لكھا جائے گا۔ (ترمذی: ۱۶۲۵، نسائی: ۳۱۸۸)