سورة الحج - آیت 2

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جس دن اسے دیکھو گے ، ہر ایک دودھ پلانے والی اپنے دودھ پلائے ہوئے کو بھول جائے گی اور ہر ایک حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تجھے سب آدمی نشہ میں معلوم ہوں گے ، اور (حالانکہ) وہ نشہ میں نہیں ہوں گے پر اللہ کا عذاب سخت ہے (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قیامت کیسے بپا ہوگی؟: سورہ نازعات میں فرمایا: ﴿یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ﴾ (النازعات: ۶) جب زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے جھٹکے لگیں گے، دل دھڑکنے لگیں گے، آہ یہی وقت ہوگا کہ ہر حاملہ کا حمل ساقط ہو جائے گا اور لوگ یوں مخبوط الحواس ہو جائیں گے جیسے کوئی نشہ آور چیز پی رکھی ہو۔ اس منظر کی ہولناکی کو سورہ الفجر میں یوں پیش کیا: ﴿اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا﴾ (الفجر: ۲۱) ’’اس وقت زمین کو ریزہ ریزہ اور پاش پاش کر دیا جائے گا۔‘‘ زمین اپنے خزانے تیل، گیس اور معدنیات وغیرہ سب اپنے اندر سے نکال باہر پھینک دے گی اور خالی ہو جائے گی۔ (انشقاق) پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اُڑتے پھریں گے اور لوگ یوں بد حواس ہو کر ایک دوسرے پر گرتے پڑیں گے جیسے روشنی کے گرد پتنگے پڑتے ہیں۔ جبکہ سورت القارعہ کی آیت نمبر ۴ اور ۵ میں یہ مضمون مذکور ہے۔ قیامت کا دن دراصل ایک طویل دورہ کا نام ہے۔ ازروئے قرآن اس ایک دن کی مدت ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار سال ہے۔ اِس طویل عرصہ میں کئی اوقات ایسے آئیں گے جن کی ہولناکی، دہشت اور گھبراہٹ بے پناہ ہو گی۔ چنانچہ ایک حدیث ہے کہ سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے ’’اے آدم!‘‘ ’’وہ کہیں گے! پروردگار میں حاضر ہوں جو ارشاد ہو۔‘‘ پھر ایک فرشتہ آواز سے پکارے گا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی اولاد سے دوزخ جانے والوں کا حصہ نکالو۔ وہ عرض کریں گے: پروردگار! دوزخ کے لیے کتنا حصہ نکالوں؟ راوی کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ۹۹۹‘‘ یہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور بچہ بوڑھا ہو جائے گا اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا‘‘ یہ بات صحابہ پر بہت دشوار گزری اور ان کے چہرے متغیر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نو سو نناوے ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک تم سے ہوگا۔ (بخاری: ۶۵۳۰) اہل جنت کا نصف امت مسلمہ ہوگی اور فرمایا: پھر تم تمام خلقت میں ایسے ہو گے جیسے کسی سفید بیل کے پہلو میں ایک کالا بال ہو یا کسی کالے بیل کے پہلو میں ایک سفید بال ہو، اور میں امید کرتا ہوں کہ تم سب لوگ اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو گے (یہ سن کر خوشی سے) ہم نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت کا تیسرا حصہ ہو گے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر پکارا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گئے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ (مسلم: ۲۲۲، بخاری: ۶۵۳۰)