يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ
جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے (ف ٢) ۔ جیسے کاغذ کو طومار لپٹیتا ہے جیسے ہم نے پہلی پیدائش شروع کی تھی (ویسے) ہم اسے دہرائیں گے (یہ) وعدہ ہمارے ذمہ ہے ہمیں کرنا ہے ۔
کائنات اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں: یعنی آسمانوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ﴾ (الزمر: ۶۷) ’’تمام آسمانوں کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے گا۔‘‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا تھا اسی طرح موجودہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز کو ختم کرکے نئی زمین، نئے آسمان اور نئی کائنات کو وجود میں لایا جائے گا۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر اس سے بھی زیادہ قادر ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہیں وہ نہ کبھی بدلیں گے اور نہ ان میں تضاد ہو گا۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایک وعظ میں فرمایا: تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو ننگے پیر، ننگے بدن بے ختنے، جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح دوبارہ لوٹائیں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے۔ (بخاری: ۷۳۸۲)