وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کر جب وہ غصہ سے لڑکر چلا گیا ، پھر سمجھا کہ ہم اسے نہ پکڑیں گے ، پھر تاریکیوں میں پکارا ، کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ، میں ظالموں میں تھا ۔
حضرت یونس علیہ السلام کو موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کر چل دیے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا۔ یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے، آگے جا کر طوفان کے آثار نمودار ہوئے قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے۔ مشورہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہیے کہ وزن کم ہو جائے۔ قرعہ یونس علیہ السلام کے نام کا نکلا۔ لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا، دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا، تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا گیا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا۔ اب کے خود یونس علیہ السلام کھڑے ہو گئے کپڑے اُتار کر دریا میں کود پڑے، بحر اخضر سے ایک مچھلی بحکم الٰہی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کر گئی، لیکن بحکم الٰہی نہ آپ کی ہڈی ٹوٹی نہ جسم کو کچھ نقصان پہنچا۔ آپ اس کے لیے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لیے قید خانہ تھا۔ ان اندھیروں میں پھنس کر اب یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا۔ سمندر کے تلے کا اندھیرا، پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا، پھر رات کا اندھیرا، یہ اندھیرے سب جمع تھے۔ (حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔) (حاکم: ۲/ ۳۲۳) تفسیر ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید خانہ کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ علیہ السلام کو نگل لے لیکن اس طرح کہ نہ ہڈی ٹوٹے اور نہ جسم پر خراش آئے جب آپ علیہ السلام سمندر کی تہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے۔ وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کر دی۔ اسے سن کر فرشتوں نے کہا کہ بار الٰہی یہ آواز تو دور کی اور بہت کمزور ہے؟ ہم تو نہیں پہچان سکے، جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے۔ اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا۔ انھوں نے کہا پروردگار ان کے اعمال تو دن رات کے ہر وقت میں اوپر چڑھتے ہی رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو کنارے پر اُگل دے۔ (تفسیر ابن کثیر) جبکہ دوسری طرف یہ صورت حال پیش آئی کہ جب سیدنا یونس علیہ السلام روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے قول کو پورا کر دیا اور وقت معینہ پر اہل نینوا کو عذاب کے آثار نظر آنے لگے۔ تو وہ سب بچے بوڑھے، جوان، عورتیں مرد مل کر کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑائے اور توبہ کی جس کی وجہ سے اللہ نے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں یہ ایک استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب آپ قوم کی طرف آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہو چکی تھی لہٰذا آپ کی تبلیغ کا انھیں بہت فائدہ ہوا۔