قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
ہم نے کہا ، اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈک اور سل امتی ہوجا ۔ (ف ١) ۔
اب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص کی یوں مدد فرمائی کہ آگ کو حکم دے دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی ہو جا مگر اتنی ٹھنڈی بھی نہیں کہ ٹھنڈک سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو تکلیف پہنچے۔ بلکہ اتنی ٹھنڈی کہ ابراہیم علیہ السلام صحیح و سالم اس میں رہ سکیں۔ یہ آگ جو کئی دنوں تک تپائی گئی تھی اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس آگ میں کئی دن رکھا گیا۔ مگر آپ کا بال بھی بیکا نہ ہوا حتیٰ کہ جو رسیاں آپ کی مشکیں باندھنے کے لیے استعمال کی گئیں وہ تو جل گئیں مگر آپ کے جسم کو کچھ گزندنہ پہنچا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ دن کیا آرام و راحت کے دن تھے جب میں آگ میں رہا تھا۔