سورة الأنبياء - آیت 51

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی نیک راہ عنایت کی تھی ، اور ہم اس کو جانتے تھے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

(رُشْدَہٗ) سے مراد ایسی ہوش مندی ہے جس سے انسان اپنے فائدہ و نقصان، نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرنے اور فائدہ کی بات کو قبول کرنے اور نقصان کی بات کو رد کرنے کے قابل ہو جائے خواہ یہ نفع و نقصان دنیوی ہو یا اُخروی۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے بہت مدت پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ہوش مندی اور عقل سلیم عطا کی تھی۔ وہ زمانے کے رسم و رواج کے پیروکار نہیں تھے بلکہ ہر بات کے نفع و نقصان کو خود سوچنے کے عادی تھے اور ہم ان کے حالات سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ فی الواقع رسالت الٰہی کے مستحق ہیں لہٰذا ہم نے انھیں نبوت عطا فرمائی۔ اگرچہ یہ ہوش مندی بھی ہم نے ہی انھیں عطا کی تھی۔