وَمَن يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ
اور جو اس کے پاس با ایمان ہو کر نیکیاں کر کے آیا ، تو ایسوں کے لئے بلند درجے ہیں (ف ٢) ۔
جو مومن بن کر آئے یعنی جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں، گناہوں کی خباثت اور گندگی سے، اخلاق رذیلہ سے، فاسد عقائد سے، شرک و کفر سے دور رہیں، اللہ واحدکی عبادت کرتے رہیں، رسولوں کی اطاعت میں عمریں گزار دیں۔ ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں۔ جہاں یہ ہمیشہ ابدالآباد رہیں گے۔ مسند احمد میں روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اصلی جہنمی تو جہنم میں پڑے ہی رہیں گے نہ وہاں انھیں موت آئے گی نہ آرام کی زندگی ملے۔ ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنھیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے۔ جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالا جائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر پھینک دیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کھیت کے دانوں کو اُگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی طرح وہ اُگیں گے۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں۔ (مسلم: ۱۸۵، مسند احمد: ۳/ ۲۰) ترمذی میں مروی ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور جو اللہ سے قیامت کے دن ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا۔ اُسے اونچے بالاخانوں والی جنت ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے۔ جتنا زمین و آسمان میں ہے۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے۔ اسی سے چار نہریں جاری ہوتی ہیں ان کی چھت رحمن کا عرش ہے۔ اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دُعا کیا کرو۔ (ترمذی: ۲۵۳۱، مستدرک حاکم: ۱/ ۸۰)