وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى
اور اگر تو پکار کر بولے ، تو وہ بھی اور اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے ۔
سِرَّ کا معنی پوشیدہ یا راز کی بات ہے، جو آپ کسی دوسرے سے کہہ دیں اور اسے تاکید کردیں کہ وہ اور کسی کو نہ بتائے اور اخفی سے مراد وہ بات اور وہ خیال ہے جو کسی کے دل میں آئے لیکن وہ کسی سے بھی اس کا ذکر تک نہ کرے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ کی وسعت قدرت و تصرف اور اختیار کو بیان کیا گیا تھا۔ اس آیت میں لامحدود وسعت علم کا بیان ہوا ہے۔ یعنی قریش کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تمھاری سب سازشوں شرارتوں اور کارستانیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ تفسیر طبری میں ہے انسان کے عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تمام گزشتہ، موجودہ اور آیندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہے جیسا ایک شخص کا علم، سب کی پیدائش اور مارکر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے۔ (تفسیر طبری) تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے۔ اور اُسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں کیے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں وہی معبود برحق ہے۔ اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں۔ احادیث صحیحہ میں رب تعالیٰ کے ننانوے نام مذکور ہیں جبکہ کتاب و سنت کی رو سے کئی اور نام بھی ملتے ہیں۔ مگر یہ سب صفاتی نام ہیں۔ ان میں سے دو نام ایسے ہیں۔ (بخاری: ۷۳۹۲) جو صرف اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں کسی دوسری مخلوق کے یہ نام نہیں ہو سکتے۔ ایک اللہ اور دوسرا رحمن۔