سورة مريم - آیت 64

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے نہیں اترتے ، جو ہمارے آگے اور جو اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس درمیان میں سے اسی اللہ کا ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فرشتوں کا نزول اللہ کے حکم کے تحت ہوتا ہے: اس آیت کی شان نزول اور تفسیر کے لیے درجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ۱۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا: تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے‘‘؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ)۔ (بخاری: ۴۷۳۱) ۲۔ اللہ سے کوئی بات بھولی ہوئی نہیں۔ سیدنا ابودرداء کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو چیز اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو حرام کی وہ حرام ہے۔ اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے۔ لہٰذا تم اللہ کی دی ہوئی معافی قبول کرو۔ کیونکہ اللہ بھولنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا)۔ (ابو داؤد: ۳۸۰۰، المستدرک للحاکم: ۴/ ۱۱۵) ۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں۔ انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ چیزوں سے روکا ہے ان کی اہانت نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں سے تم سے درگزر کیا ہے۔ بھول کی بنا پر نہیں لہٰذا تم ان میں چھان پھٹک نہ کرو۔ (سنن دارقطنی: ۲/ ۲۱۵) ہوا یہ تھا کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اللہ کی طرف سے حالات کے مطابق احکام و ہدایت کی شدید ضرورت تھی پھر جب کافی دیر بعد جبرائیل علیہ السلام متعلقہ ہدایات و احکام لے کر آئے تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضمناً جبرائیل علیہ السلام سے یہ بات بھی کہہ دی۔ جس کے جواب میں جبریل علیہ السلام نے یہ وضاحت فرما دی کہ ہم کوئی بااختیار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے بندے ہیں ۔ جب ہمیں حکم ملے تب ہی آسکتے ہیں۔ اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ بھولنے والا نہیں بلکہ اس دیر میں بھی اس کی مصلحتیں ہوتی ہیں۔