سورة مريم - آیت 39

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو انہیں حسرت کے دن سے ڈرا جب مقدمہ فیصل ہوگا اور (اب تو) وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قیامت کا دن دوزخیوں کے لیے یوم حسرت ہو گا: کافروں کے پچھتاوے کے مواقع تو بہت ہوں گے مگر آخری موقع غالباً وہ ہوگا جب اہل جنت کو جنت جانے کا اور اہل دوزخ کو دوزخ جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (قیامت کے دن) موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لے کر آئیں گے۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا اے اہل جنت! ’’تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو‘‘ وہ کہیں گے کہ ’’ہاں‘‘ یہ موت ہے اور ہم سب اس کا مزا چکھ چکے ہیں‘‘ پھر وہ پکارے گا ’’اے دوزخ والو تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو‘‘ ہو کہیں گے ’’ہاں‘‘ یہ موت ہے، ہم سب اس کو دیکھ چکے ہیں‘‘ اس وقت وہ مینڈھا ذبح کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہے گا ’’جنت والو تمھیں ہمیشہ بہشت میں رہنا ہے۔ اور دوزخ والو! تمھیں بھی ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اب کسی کو موت نہیں آئے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ تک۔ (مسند احمد: ۳/ ۹، بخاری: ۴۷۳۰) اس دن کافر سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے مگر ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ کاٹیں گے مگر اس وقت کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یہ وقت حسرت کا بھی ہوگا اور کام کے خاتمے کا بھی وقت یہی ہوگا۔ پس یوم الحسرت بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔