سورة البقرة - آیت 220

فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یتیموں (ف ٢) کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہہ ان کا سفوارنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا خرچ اپنے میں ملا رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خرابی کرنے والے اور سنوارنے والے کو جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تم پر مشکل ڈال دیتا ، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس سے پیشتر یتیموں کے بارے میں دو حکم نازل ہوچکے تھے۔ (۱) یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جا ؤ ۔ (۲)جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں جب یہ وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام ڈرگئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی۔ حتیٰ کے کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اُسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یتیموں کی بھلائی اور اصلاح: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یتیموں کی بھلائی اور اصلاح کے لیے تم جو بھی طریقہ اختیار کرسکتے ہو۔ اگر ان کا مال اپنے مال میں ملانا چاہتے ہو تو بھی کوئی حرج نہیں آخر وہ تمہارے ہی بھائی ہیں۔ مال ملا لو یا الگ ركھو۔ ہر صورت درست ہے۔ بشرطیكہ تمہاری اپنی نیت نیکی کی ہو اور مقصود یتیم کی بھلائی ہو۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کردیتا اور تم پر سختی کرتا۔ یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ہر طرح کی صورت حال کی اجازت دے دی ہے۔ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والے کے سرکے بالوں کے برابر گناہ جھڑ جائیں گے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں یوں ہوں گے جیسے ہاتھ کی یہ دونوں انگلیاں اکٹھی ہیں۔ ‘‘ (مسلم: ۱۳۲۱)