يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
جوئے (ف ٣) اور شراب کی بابت تجھ سے سوال کرتے ہیں ، تو کہہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدوں سے زیادہ ہے تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں (ف ١) تو کہ جس قدر حاجت سے زیادہ ہو ، یوں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے شائد تم فکر کرو ۔
یہ شراب سے متعلق ابتدائی حکم ہے۔ فائدہ سے مراد: دنیاوی فائدہ ہے۔ مثلاً (۱)شراب وقتی طور پر بدن میں مستعدی اور چستی پیدا کرتی ہے۔ (۲) ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے۔ (۳) جنسی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (۴) نفع بخش کاروبار ہے۔ اسیطرح جوا بھی ہے كہ اس میں بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے اور کچھ مال مل جاتا ہے جس سے خوشی ہوتی ہے مگر یہی چیزیں بعد میں کئی مفاسد، جھگڑوں اور دشمنیوں کا سبب بن جاتی ہیں اسی لیے جوا اور شراب کو گناہ قراردیا۔ اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو اس میں کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ریڈیو۔ ٹی وی اور دیگر اس قسم کی ایجادات لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا مقابلہ کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان، اخلاق و کردار کے لحاظ سے ۔ اگر دینی فوائد کے مقابلہ میں نقصانات زیادہ ہیں تو پھر دنیاوی مفادات کے لیے انھیں جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ ضرورت سے زائد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا: یہ نفلی صدقات کی آخری حد ہے ایسا نہ ہو کہ انسان سارے مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور بعد میں خود محتاج ہوجائے ۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان كیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے۔ اور ابتدا ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔‘‘ (مسند احمد: ۲/ ۲۷۸، ح: ۷۷۴۱، الجامع بین الصحیحین : ۲۴۹۴) صدقہ کی آخری حد: کم از کم فرضی صدقہ زکوٰۃ ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر نے ایسے لوگوں سے جہاد کیا تھا۔ اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر صدقہ کرکے جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔