وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
اور وہ (یہود) تجھ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں ، تو کہہ ، اب اس کا ذکر میں تمہارے سامنے پڑھتا ہوں ۔
ذوالقرنین کون تھا؟ یہ مشرکین کے تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے تھے۔ ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں یہ نام اس لیے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لیے کہ اس نے مشرق و مغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی اس کی شعاع کا مشاہدہ کیا تھا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں، یعنی دو لِٹوں یا دو مینڈھیوں یا دو زلفوں والا، قدیم مفسرین کی تحقیق کے مطابق اس کو سکندر رومی قرار دیا ہے۔ جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ لیکن جدید مفسرین جدید تحقیقات اور معلومات کی روشنی میں اس سے اتفاق نہیں کرتے بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اس پر جو داد تحقیق دی ہے اور اس شخص کی دریافت میں جو محنت و کاوش کی ہے۔ وہ نہایت قابل قدر ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے۔ (۱)اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازا تھا۔ (۲)وہ مشرقی و مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ (۳) اس نے وہاں یا جوج و ماجوج کا راستہ بند کرنے کے لیے ایک نہایت محکم بند تعمیر کیا۔ (۴)وہ عادل، اللہ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا تھا(۵)وہ نفس پر ست اور مال کا حریص نہ تھا۔ مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ان خصوصیات کا حامل صرف فارس کا وہ عظیم حکمران ہے۔ جسے یونانی سائرس، عبرانی خورس اور عرب کیخسرو کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس کا دور حکمرانی ۵۳۹ قبل مسیح ہے۔ نیز فرماتے ہیں ۱۸۳۸ء میں سائرس کے ایک مجسمے کا بھی انکشاف ہوا جس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ ج۱، ص۳۹۹۔۴۳۰ طبع قدیم۔ واللہ اعلم الصواب۔