وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
اور آدمیوں کو جب ان کے پاس ہدایت (قرآن) آئی تو ان کو ایمان لانے اور اپنے رب سے استغفار مانگنے سے صرف اسی بات نے روکا کہ اگلوں کی رسم (یعنی قہر الٰہی) ان پر آئے یا ان کے سامنے عذاب آکھڑا ہو۔ (ف ٢)
اس آیت میں کافروں کی سرکشی بیان ہو رہی ہے، یعنی دلائل دینے کے لحاظ سے تو ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی مگر یہ لوگ محض دلائل سے راہ راست پر آنے والے نہیں۔ اب بس انھیں عذاب کا انتظار ہے کہ اللہ کے عذابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ کسی نے تمنا کی کہ آسمان ہم پر گر پڑے۔ کسی نے کہا کہ لا جو عذاب لا سکتا ہے، لے آ۔ قریش مکہ نے بھی یہی کیا کہ الٰہی اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا کوئی اور درد ناک عذاب ہمیں دے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ پتا نہیں کہ اس کے بعد ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی یا اس کے بعد انھیں ایمان لانے کا موقع ہی کب ملے گا۔