سورة الكهف - آیت 19

وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اسی طرح ہم نے انہیں (ایک دفعہ) جگا دیا تھا کہ آپس میں لگے پوچھنے ، ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر یہاں رہے ‘ وہ بولے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں پھر بولے تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کس قدر ہے اب تم اپنے میں سے ایک کو اپنا روپیہ (نوٹ) دے کر شہر میں بھیج دو ، تاکہ دریافت کرے کہ پاکیزہ کھانا کس کی دکان پر ہے کہ اس سے تمہارے پاس لائے اور نرمی سے بولے اور کسی کو تمہارے حال کی خبر نہ دے (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

موت کے بعد زندگی: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انھیں سلادیا تھا اسی طرح اپنی قدرت سے انھیں جگادیا۔ وہ لوگ اس حال میں تین سو نو (۳۰۹) سال تک رہے لیکن جب جاگے تو ویسے ہی تھے جیسے سونے کے وقت میں تھے، بدن، بال، کھال سب اصلی حالت میں تھے ان میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی؟ ہم کتنی مدت سوتے رہے؟ تو جواب ملا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم کیونکہ یہ صبح کے وقت سوئے تھے اور جب جاگے تو شام کا وقت تھا اس لیے انھیں یہی خیال ہوا۔ لیکن پھر خود ہی خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں، اس لیے انھوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ اب چونکہ بھوک اور پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لیے انھوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز پیش کی۔ جس کے دام ان کے پاس تھے جن میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیے اور کچھ موجود تھے۔ کہنے لگے کسی کو دام دے کر بھیج دو۔ وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ﴾ (النور: ۲۱) ’’اگر اللہ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا۔‘‘