وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
اور (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو دھوپ کو دیکھے گا جب نکلتی ہے ، ان کے غار سے بچ کر داہنی طرف کو جاتی ہے اور جب ڈوبتی ہے تو بائیں طرف کو کترا جاتی ہے اور وہ وہاں کشادہ میدان میں ہیں (ف ٢) ۔ یہ بات اللہ کی آیتوں (معجزوں) میں سے ہے ۔ جسے اللہ نے راہ دکھائی وہی راہ یاب ہوا اور جسے وہ گمراہ کرے تو اس کے لئے کوئی راہنما دوست نہ پائے گا ۔
یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کے نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی۔ وہ اس سے فراخی میں ہیں انھیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے گل سڑ جاتے۔ یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب تعالیٰ نے انھیں اس غار میں پہنچایا، انھیں زندہ رکھا، دھوپ بھی پہنچائی اور ہوا اور چاندنی بھی تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ بدن کو کوئی نقصان پہنچے۔ اور فی الواقع یہ بھی اللہ کی طرف سے کامل نشان قدرت تھا کہ ان توحید پرست نوجوان کی ہدایت خود اللہ تعالیٰ نے کی تھی وہ راہ راست پاچکے تھے، کسی کے بس میں نہ تھا کہ انھیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا کوئی ہادی نہیں۔