نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
ہم ٹھیک ٹھیک تجھے ان کا قصہ سناتے ہیں ، وہ چند جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت زیادہ دی (ف ١) ۔
ایک قول یہ ہے کہ یہ نوجوان، عیسائیت کے پیروکار تھے ا ور بعض کہتے ہیں کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں دقیا نوس نامی ایک بادشاہ تھا، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان چند نوجوان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ ان نوجوانوں کی تعداد نو یا اس سے کم تھی یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے لگے، پھر آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ توحید کا چرچا ہوا تو بات بادشاہ تک پہنچی اور اس انھیں اپنے دربار میں طلب کرکے ان سے پوچھا تو وہاں انھوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی، لیکن بالآخر اپنی مشرک قوم اور بادشاہ کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لیے دور ایک پہاڑ کی غار میں پناہ گزین ہو گئے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کر دی اور وہ ۳۰۹ سال تک ہوئے رہے۔