وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آیا ، تو فرعون نے اسے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) میں تجھے جادو کا مارا ہوا سمجھتا ہوں ۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے نو معجزات: یہ نو واضح معجزات سورۃ الاعراف میں مذکور ہیں۔ جو یہ ہیں: (۱) عصائے موسیٰ (۲) ید بیضا (۳)بھری مجلس میں جادو گروں کا شکست کھانا (۴) یکے بعد دیگرے طوفان (۶) ٹڈی دل (۷)جوئیں (۸)مینڈکوں اور (۹) خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے معجزات تھے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر بھی واضح دلیل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے۔ لیکن ان تمام معجزات کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا۔ اور ظلم و زیادتی کرکے کفر اور انکار پر جمے رہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان قریش مکہ کو مطلوبہ معجزات دکھا بھی دیے جائیں تو فرعونیوں کی طرح یہ بھی ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا ’’آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اُس سے کچھ پوچھیں‘‘ وہ کہنے لگا اسے نبی نہ کہہ اگر اس نے سن لیا تو اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی، اب دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو کونسی نو واضح ہدایات دی گئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو، یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو۔ اور اے یہود تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔‘‘ یہ سن کر وہ بے ساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے او رکہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے تو کہنے لگے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور ہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری اختیار کرنے کے بعد یہودہمیں زندہ نہ چھوڑیں گے۔‘‘ (مسند احمد: ۴/ ۲۳۹) یہ حدیث ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے۔ (ترمذی: ۳۱۴۴، ابن ماجہ: ۳۷۰۵، نسائی: ۴۰۸۳) اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبداللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور ان پر جرح بھی کی ہے کہ ممکن ہے کہ انھیں نو کلمات کا شبہ نو آیات سے ہو گیا ہو اس لیے کہ یہ تورات کے احکام ہیں۔ جبکہ فرعون پر حجت قائم کرنے والی چیزیں یہ نہیں واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے علاوہ بھی متعدد معجزات دیے گئے تھے، مثلاً پتھر پر لاٹھی مارنے سے بارہ چشموں کا پھوٹ پڑنا۔ بادلوں کا سایہ کرنا آسمان سے من وسلویٰ کا اترنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزات کا بیان یہاں اس لیے نہیں کیا کہ وہ فرعونیوں نے نہیں دیکھے تھے یہاں صرف ان نو معجزات کا ذکر کیا جو فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انھیں جھٹلایا تھا۔