إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا
مگر تیرے رب کی مہربانی سے ، کیونکہ تجھ پر اس کا بڑا فضل ہے ۔
اللہ کفار کو چیلنج دے رہے ہیں کہ ہم نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کے منزل من اللہ ہونے میں تمھیں شک ہے تو تم اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو تمھیں سمجھ جانا چاہیے کہ واقعی یہ کام کسی انسان کی کاوش نہیں۔ اور یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقیناً قیامت تک قاصر رہیں گے۔ سورہ یونس(۳۸) میں ارشاد ہے: ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾(یونس: ۳۸) ’’یا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجیے تو پھر تم اس کی مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔‘‘ قرآن کریم کا یہ چیلنج آج تک باقی ہے اس کا جواب کسی سے نہیں ملا۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قرآن کسی انسان کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع کلام الٰہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (ہود: ۱۳) ’’یا یہ کہتے ہیں کہ قرآن اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجیے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس صورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ۔ اور اللہ کے سوا جس کو چاہو اپنے ساتھ ملا لو۔ اگر تم سچے ہو۔‘‘ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے چیلنج دیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا قرآن ہے تو اس کی نظیر پیش کرکے دکھلا دو، اور تم جس کی چاہو مدد حاصل کرلو، لیکن تم کبھی ایسا نہیں کر سکو گے۔