قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا
تو کہہ ہر کوئی اپنے طور طریقے پر کام کرتا ہے سو تیرا رب اسے خوب جانتا ہے جو خوب راہ یافتہ ہے (ف ٢) ۔
شاکلہ کا مفہوم: شاکلہ کے معنی طور، طریقہ، ڈھب ڈھنگ کے ہیں۔ یعنی ہر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص صدقہ کرتا ہے تو اس کا مقصود یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو۔ اور ایک شخص پوشیدہ طور پر صدقہ کرتا ہے۔ اور اس کا مقصود یہ ہے کہ نمایش نہ ہو۔ اب دیکھیے نیت دونوں کی بہرا ہے لیکن طریقہ اور انداز فکر الگ الگ ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے اور دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں آہستہ آواز میں قرآن پڑھ رہے ہیں پوچھا اتنا آہستہ کیوں پڑھتے ہو۔ عرض کیا اس لیے کہ میرا رب بہرا نہیں ہے کہ چلا کر پڑھوں، آگے گئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں پوچھا اتنی بلند آواز سے کیوں پڑھ رہے ہو، عرض کیا سونے والوں کو جگا رہا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی۔‘‘ عمل ایک ہی ہے نیت بھی بخیر ہے۔ لیکن سوچ کا انداز الگ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر، اپنی طبیعت پر اپنی نیت پر اپنے دین پرا ور طریقے پر عمل کر رہا ہے تو کرتا رہے۔ (تفسیر طبری) بدلے کے وقت یعنی قیامت کے دن نیکی اور بدی میں تمیز ہوگی۔ سب کو بدلے ملیں گے۔ اللہ پر کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔