وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا
اور کہہ اے رب مجھے (مدینہ میں) پسندیدہ طور سے داخل کر ، اور پسندیدہ طور سے (مکہ سے) نکال اور اپنی طرف سے مجھے ایک حکومت کی مدد دے ۔
اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جو اس آیت کے نزول کے تقریباً ایک سال بعد واقع ہونے والی تھی، اور جو دعا سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ یا اللہ ایسی صورت پیدا فرما کہ جہاں بھی جاؤں حق و صداقت کی خاطر جاؤں اور جہاں سے جاؤں (یعنی مکہ) تو حق و صداقت کی خاطر ہی نکلوں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں، پس اللہ کا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بد اعمالیوں کا مزا چکھا دے۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا (یہ آیت اسی بیان میں اتری)۔ دین کے نفاذ کے لیے اقتدار کی ضرورت: اس جملہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مجھے خود ایسا اقتدار یا حکومت عطا فرما جس میں تیری مدد و نصرت شامل حال ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کسی اقتدار یا حکومت کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ دین کی سربلندی کے لیے میرا مدد گار ثابت ہو۔ دین حق کے نفاذ کے لیے غلبہ اور اقتدار ضروری ہوتا ہے محض پند ونصائح سے لاتوں کے بھوت نہ کبھی راہ راست پر آ سکتے ہیں نہ اپنی معاندانہ سرگرمیاں چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں اور ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ سمجھانے کے بعد ڈنڈے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے، لہٰذا دعوت دین کے لیے اقتدار و غلبہ کی کوشش کرنا بھی ویسا ہی ضروری ہے۔