وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا
اور وہ لوگ تو تجھے زمین (مکہ) سے دل برداشتہ کرنے ہی لگے تھے تاکہ تجھے زمین سے نکالیں اور اس صورت میں وہ بھی تیرے بعد وہاں تھوڑے ہی دنوں رہیں گے ۔
ہجرت کے ساتھ ہی کفار مکہ کے زوال کا آغاز: جن ایام میں یہ آیت نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر کفار مکہ کاتشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ ان ایام میں ایسی آیات کا نزول کفار مکہ کے حق میں ایک صریح پیش گوئی تھی جسے انھوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں محض ایک دھمکی ہی سمجھا مگر آنے والے حالات و واقعات نے اس پیش گوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کر دیا اس آیت کے نزول کے ایک سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑنے اور مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اس کے بعد قریش کی طاقت میں روز بروز زوال آنا شروع ہوا اور صرف آٹھ سال بعد آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ ظلم و تشدد کرنے والے خود محکوم بن گئے اور پیغمبر اسلام سے رحم کی التجا پر مجبور ہو گئے۔ مزید دو سال بعد سرزمین عرب کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہو گئی۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا۔