وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا
اور وہ تو تجھے ہماری وحی سے جو ہم نے تیری طرف نازل کی ہے بچلانے ہی لگے تھے تاکہ تو اس کے سوا کچھ ہم پر افترا کرے اور اس وقت وہ تجھے دوست سمجھتے ۔
اس آیت میں اُن حالات کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آ رہے تھے کفار مکہ کے آپ سے بغض و عناد اور دشمنی کے خاتمہ کی ایک ہی صورت تھی کہ کسی نہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شرک اور رسوم جاہلیت کے ساتھ کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں۔ اس غرض کے لیے انھوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کے لیے ہر کوشش کی، فریب دیے، لالچ دلائیں، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پراپیگنڈے بھی کیے۔ ظلم و ستم بھی کیا معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی بائیکاٹ بھی کیا اور وہ سب کچھ کیا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے