وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور دریا میں سواری بخشی ، اور پاکیزہ رزق دیا ، اور اپنی خلقت میں سے بہتوں پر انہیں افضل ٹھہرایا (ف ١) ۔
انسان کو دوسری تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم یہ ہے کہ اللہ نے اس کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ یہ شرف اور فضل ہر انسان کو حاصل ہے۔ چاہے مومن ہو یا کافر کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف کئی اعتبار سے ہے۔ جس طرح کی شکل و صورت، قدوقامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لیے بے شمار چیزیں ایجاد کیں، حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں علاوہ ازیں اسی عقل سے وہ صحیح و غلط مفید و مضر اور حسین وقبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ اسی عقل کے ذریعے سے وہ اللہ کی دیگر مخلوقات سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اور انھیں اپنے تابع رکھتا ہے۔ اسی عقل و شعور سے وہ ایسی عمارتیں تعمیر کرتا، ایسے لباس ایجاد کرتا اور ایسی چیزیں تیار کرتا ہے جو اسے گرمی اور سردی اور موسم کی دیگر شدتوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند، سورج، ہوا، پانی اور دیگر بے شمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔ خشکی اور تری کی سواریاں: یعنی خشکی میں گھوڑوں، خچروں، گدھوں اور اُونٹوں پر اور اپنی تیار کردہ سواریوں ریلوں، بسوں، گاڑیوں، ہوائی جہاز، سائیکل اور موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوتا ہے۔ اسی طرح سمندر میں کشتیاں اور جہاز ہیں جن پر وہ سوار ہوتا اور سامان لاتا اور لے جاتا ہے۔ پاکیزہ روزیوں سے مراد: انسان کی خوراک کے لیے جو غلہ جات، میوے اور پھل اس نے پیدا کیے ہیں اور ان میں جو جو لذتیں، ذائقے اور قوتیں رکھی ہیں۔ انواع اقسام کے یہ کھانے، یہ لذیذ و مرغوب پھل اور یہ قوت بخش مرکبات و مشروبات اور خمیرے اور معجونات کیا انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق کو حاصل ہیں؟ یہ سب کچھ یقینا اللہ کی بخشش اور اس کا کرم ہے پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور ضلالت اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان دوسری مخلوقات کے مقابلے میں ایسے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر اللہ کے سوا اس کی دوسری مخلوق کے آگے سر جھکانے لگے یا اپنے ہی جیسے کسی محتاج بندے کو حاجت روا اورمشکل کُشا سمجھنے لگے۔