وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ، بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ؟ (ف ٢) ۔
ابلیس کی قدیمی دشمنی: انسان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ابلیس تمھارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمھاری دشمن ہے۔ سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر کیا۔ آدم کو حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سرا کسی مٹی سے بنے ہوئے کے آگے جھکے میں اس سے کہیں افضل ہوں میں آگ ہوں، یہ خاک ہے۔ پھر اس کی ڈھٹائی دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں گستاخانہ کہتا ہے کہ اگر تو مجھے مہلت دے تو میں بھی اس کی اولاد کو برباد کرکے ہی چھوڑوں گا۔ سب کو بہکا دوں گا انھیں اپنا تابعدار بنا لوں گا۔ بس تھوڑے سے تیرے بندے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے باقی سب کو غارت کر دوں گا۔ قصہ آدم و ابلیس اس سے پہلے سورہ البقرہ، ۳۰ سے ۳۹، سورہ انعام۱۱سے ۲۵ اور سورۃ الحجرات۲۶ تا ۴۲ میں گزر چکا ہے یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہاہے۔ علاوہ ازیں سورہ طٰہٰ، سورہ کہف اور سورہ ص میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔