وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا
اور کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں ، اور چورا ہوگئے تو کیا ہم نئی پیدائش میں اٹھیں گے ؟
سب جن و انس مرنے کے بعد روز قیامت دوبارہ پیدا ہوں گے۔ کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے پوچھا کرتے تھے کہ کیا جب ہم ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے، پھر بھی نئے سرے سے پیدا ہوں گے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِي الْحَافِرَةِ - ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۔ قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌۘ﴾ (النازعات: ۱۰۔ ۱۲) ’’کیا ہم مرنے کے بعد اُلٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِيَ خَلْقَهٗ قَالَ مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ﴾ (یٰسٓ: ۷۸) ’’اوراس نے ہمارے سامنے مثال بیان کی اور اپنی پیدایش کو بھول گیا کہنے لگا کہ گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟‘‘ پس انھیں جواب دیا گیا۔ کہ ہڈیاں تو کیا خواہ تم پتھربن جاؤ، خواہ لوہا بن جاؤ، خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلاً پہاڑ یا زمین یا آسمان، بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ، اللہ پر تمھارا جلانا مشکل نہیں، جو چاہو ہو جاؤ۔ دوبارہ اُٹھو گے ضرور۔ (تفسیر طبری) پھر وہ سر ہلائیں گے یعنی استہزا کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے کئی اور مقامات پر بھی دیا ہے کہ جس ہستی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔ وہ دوسری بار بھی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ جواب سن کر ازراہ مذاق سر ہلاکر کہتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو سمجھ آگئی مگر بتاؤ ایسا واقعہ ہوگا کب یہ ان کا تیسرا سوال ہوتا تھا۔ اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ جس چیز کا واقع ہونا ایک یقینی امر ہے وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ جیسے ہر انسان کی موت یقینی ہے۔ مگر اس کا وقت معلوم نہیں کسی بھی وقت آ سکتی ہے، لہٰذا اسے قریب سے ہی سمجھنا چاہیے۔