وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا
اور جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ان کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں ، (ف ٤) ۔
کفار کا ایک نفسیاتی تجزیہ: یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ، یادلوں کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پر اثر نہ کر سکے، اور ان کے کانوں میں ثقل سماعت ہونا، یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَيْهِ وَ فِيْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنۢ بَيْنِنَا وَ بَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ﴾ (حم السجدۃ: ۵) ’’اور وہ کہنے لگے کہ تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے۔ اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گی گیاہے۔ پس تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔‘‘ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے تھے، لہٰذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنا دیا۔ مسند ابی یعلی موصلی میں ہے کہ ’’سورۂ لہب‘‘ اترنے پر ام جمیل شور مچاتی، دھاری دار پتھر ہاتھ میں لیے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس (نعوذباللہ) مذمم کو ہم ماننے والے نہیں، ہمیں اس کا دین ناپسند ہے۔ ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے۔ کہنے لگے حضور! یہ آرہی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بے فکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے کے لیے تلاوت قرآن شروع کر دی اور یہی آیت تلاوت فرمائی، وہ آئی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہجو کی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، نہیں رب کعبہ کی قسم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی۔ اس پر وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں۔ (حاکم۲/۳۶۱، حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔)