سورة الإسراء - آیت 31

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ، انہیں اور تمہیں ہم رزق دیتے ہیں ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قتل اولاد کی مذمت: دور جاہلیت میں لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے۔ اللہ رحیم و کریم اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی مہربان ہے ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثہ دو۔ اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انھیں مار نہ ڈالا کرو۔ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔‘‘ (بخاری: ۷۵۲۰) آج کل قتل اولاد کا گناہ عظیم نہایت منظم طریقے سے اور خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات بہتر تعلیم وتربیت اور خواتین اپنے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اس جرم کا ارتکاب عام کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِيَّاهُم﴾ (الانعام: ۱۵۱) ’’فقیری اور تنگدستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو۔ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تمھیں اور انھیں روزیاں دینے والے ہم ہیں۔‘‘ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے۔