مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
تھوڑا فائدہ ہے ، اور انہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا ۔
حلال و حرام بنانے والے خود اس کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ یعنی مشرکوں نے جو عقیدہ گھڑ رکھا تھا، وہ مال مویشی سے، زمینی پیداوار سے کچھ حصہ اللہ کے لیے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو، بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے، پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے سے نکال کر اس میں شامل کر لیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے، یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں صدقات اور خیرات نہ کرتے۔ ایسے سب افعال کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ آستانوں کے مجاوروں یا مہنتوں کو پہنچتا تھا وہی ایسی شرکیہ باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس طرح اپنے دنیوی فائدے حاصل کرتے تھے ان لوگوں نے اپنے چند روز دنیوی مفاد کی خاطر بہت سی خلقت کو شرک میں مبتلا کر رکھتا تھا۔ فرمان الٰہی ہے۔ اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں، دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اُٹھالیں پھر ہم انھیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب چکھائیں گے۔