وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ
اور جو نعمت تم پاس ہے سو اللہ کی طرف سے ہے پھر سختی تم پر آجاتی ہے ، تو تم اسی کی طرف چلاتے ہو ،
جو کچھ نعمتیں بندوں کے ہاتھ میں ہیں سب اسی کی طرف سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کی صریح شہادت تمہارے اندر موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب ہر قسم کے سہارے ٹوٹتے نظر آتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت ابھر آتی ہے تو تم خالصتاً اللہ ہی کو پکارتے اور اسی کے سامنے فریاد کرنے لگتے ہو کیونکہ انسان کی اصل فطرت اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو مالک ذی اختیار نہیں جانتی ۔ یہی حال مشرکین مکہ کاتھاکہ جب سمندر میں گھر جاتے باد مخالف کے جھونکے کشتی کو پتے کی طرح ہچکولے دینے لگتے تو اپنے ٹھاکروں، دیوتاؤں، پیروں، فقیروں، ولیوں،نبیوں سب کو بھول جاتے اور خالص اللہ سے لو لگا کرخلوص دل سے اس سے بچاؤ اور نجات طلب کرتے ۔ لیکن کنارے پر کشتی کے پار لگتے ہی اپنے الٰہ یاد آنے لگتے اور اللہ کو یکسر بھول جاتے ۔ اس سے بڑھ کر بھی ناشکری، کفر اور نعمتوں کی فراموشی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ مطلب نکل جاتے ہی بہت سے لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں تاہم انھیں دنیا میں فوری سزا نہیں دی جاتی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ دنیا میں تو تم اپنا کام چلا لو۔ یہاں کا معمولی سا فائدہ اٹھالو۔ لیکن مرتے ہی انھیں سب آٹے دال کابھاؤ معلوم ہوجائے گا۔