سورة النحل - آیت 44

بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انہیں ہم نے دلائل اور کتابوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے تیری طرف ذکر (قرآن) اتارا ، تاکہ تو لوگوں کے لئے جو ان کی طرف نازل ہوا ہے بیان کرے اور تاکہ وہ فکر کریں ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کالفظ نہیں بلکہ ذکر کالفظ استعمال فرمایا ہے اور اس سے پہلی آیت میں بھی اہل کتاب کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ اہل الذکر کااستعمال فرمایا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ذکر یا قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں مختصراً یہ کہ ذکر میں اللہ کی کتاب کے علاوہ وہ بصیرت بھی شامل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو کتاب کے بیان کے سلسلہ میں عطا کی جاتی ہے اور اس حکمت کاتقاضا یہ تھاکہ لازماً ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے جو صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی اور اپنی راہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کرکے اور ذکر الٰہی (قرآن) کے منشا کے مطابق اس نظام کو بھی چلائے ۔ ذکر فرشتوں کے ذریعے اور براہ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک پہنچایا جاسکتاتھا مگر اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاتھا۔ اہل ذکر کون ہیں: اہل ذکر سے مراد دینی علوم کے ماہر ہیں اور ’’ ذکر ‘‘ سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہے ۔ یعنی کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول بھی ذکر کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے دینی علوم کے کسی ماہر سے پوچھ لیناچاہیے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے کھپا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو محفوظ کردیا جو درحقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کاایسا مضبوط انتظام فرماکر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کااعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ قرآن کا بیان کیا چیز ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کلام آپ پر اللہ کی طرف سے نازل ہواہے اسے پڑھ کر سنا کر یا لکھوا دیا کریں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خود یا د کرلیں اور دوسروں کو بھی یاد کروا دیا کریں بلکہ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین مزید ذمہ داریاں بھی تھیں جن میں سے ایک کاذکر یہاں کیاجارہاہے۔ یعنی جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواہے اس کامطلب اور تشریح وتوضیح بھی لوگوں کو بتا دیا کریں، اگر کسی کو کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو سمجھا دیا کریں ۔ اگر کوئی سوال کرے تو انھیں اس کا جواب دیا کریں ۔ کئی الفاظ کثیر المعانی ہوتے ہیں کچھ محاورۃً استعمال ہوتے ہیں، کچھ الفاظ کے عرفی معنی اور لغوی معنی ہوتے ہیں ان سب کی توضیح و تشریح کانام قرآن کابیان ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہاجاتاہے۔دوسر ے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کابیان یا وضاحت یا ارشادات یا اصطلاحی زبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یا حدیث بھی اتباع کے لحاظ سے بعینہ اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کی اتباع واجب ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص قرآن کے بیان کامنکر ہے وہ یقیناً قرآن ہی کا منکر ہے۔