وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور جنہوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کے لئے گھر چھوڑا ہم انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے ، اور آخرت میں کا ثواب تو بہت بڑا ہے ، اگر وہ جانیں (ف ١) ۔
دین کی پاسبانی میں ہجرت: ہجرت کا مطلب اللہ کے دین کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر اپناوطن، اپنے رشتے دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جاناجہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہوسکے ۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے اور یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے۔ یہ سورت چونکہ مکی ہے اس لیے یہاں مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں قریش مکہ کی ایذاؤں، مظالم سے تنگ آکر حبشہ ہجرت کرکے گئے تھے، ان میں عورتوں سمیت تعداد ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب صدیقہ اور صدیق تھے۔ اللہ ان سب سے خوش ہوا پس اللہ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتاہے کہ انھیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا جیسے مدینہ پاک اور پاک روزی، مال کابھی بدلہ ملا اور وطن بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خوف الٰہی جیسی چیز چھوڑے، اللہ تعالیٰ اس سے کہیں بہتر پاک اور حلال چیز اسے عطا کرے گا۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حاکم و بادشاہ کردیا۔ ابھی آخرت کا اجر باقی ہے، پس ہجرت سے جان چھڑانے والے اگر مہاجرین کے اجر سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کر آپ جب کسی مہاجر کو اس کاغنیمت کاحصہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کااللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے باقی ہے۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے، یہ پاک باز لوگ جو تکلیفیں انہیں راہ خدا میں پہنچتی ہیں یہ انھیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ پر جوانھیں توکل ہے اس میں کبھی فرق نہیں آتا، اسی لیے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں ۔