هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کافر کس انتظار میں ہیں ، کیا اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ انکے پاس فرشتے آئیں یا تیرے رب کا حکم (عذاب) آپہنچے ، ایسے ہی ان کے اگلوں نے کیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر آپ ظلم کرتے تھے ، (ف ١) ۔
فرشتوں کی آمد کاانتظار: اللہ تعالیٰ مشرکوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انھیں تو ان فرشتوں کاانتظار ہے جو ان کی روح قبض کرنے کے لیے آئیں گے یاقیامت کاانتظار ہے ۔ ان جیسے پہلے مشرکوں کابھی یہی وطیرہ تھا یہاں تک کہ ان پرعذاب الٰہی آپڑے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حجت پوری کرکے یعنی ان کے عذر ختم کرکے، کتابیں اتار کر، رسول بھیج کر، پھر بھی ان کے انکار کی شدت کے بعد ان پر عذاب الٰہی اتار ے ۔ مشرکین مکہ بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ فرشتے ان کے پاس بھی آتے ہیں لیکن اس کی دو ہی صورتیں ہیں ایک ان کی روح قبض کرنے کے لیے اور دوسرے ان پر قہر الٰہی نازل کرنے کے لیے۔ بالآخر انھیں بھی اپنی کرتوتوں کی پاداش میں فرشتوں سے دوچارہوناہی پڑے گا اور اللہ سے وہ جس بات کامطالبہ کرتے ہیں اللہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ اللہ نے تو ان پر ظلم نہیں کیا وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کررہے تھے یعنی رسولوں کی مخالفت اور تکذیب کرکے خود ہی انہوں نے اپنے آپ پر ظلم كیا جب رسول ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ کاعذاب آجائے گا تو یہ استہزا کے طور پر کہتے کہ (جاؤ اپنے اللہ سے کہہ، وہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کردے، چنانچہ اس عذاب نے انھیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑا تے تھے، پھر اس سے بچاؤ کاکوئی راستہ ان کے پاس رہا۔‘‘