وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ
اور (رسولوں نے) فتح مانگی ، اور ہر سرکش ضدی نامراد رہ گیا
ایک طرف تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح ونصرت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ظالم مشرکین اللہ سے مطالبہ کررہے ہوتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچے ہیں تو وہ عذاب کیوں نہیں لے آئے جس کی ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال: ۳۲) ’’اے اللہ اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔ ‘‘ یا جس طرح جنگ بدر کے موقع پر بھی مشرکین نے اسی قسم کی آرزو کی تھی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعامانگ رہے تھے دوسری جانب سرداران کفر بھی کہہ رہے تھے کہ الٰہی آج سچے کو غالب کر۔ یہی ہوابھی۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾ (الانفال: ۱۹) تم فتح طلب کرتے تھے لو اب وہ آگئی ۔ اب بھی اگر باز آجاؤ تو تمہارے میں بہتر ہے۔