يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو ! جو کچھ زمین میں حلال اور ستھرا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ (ف ١)
حلال سے مراد: (۱)ہر وہ چیز جسے شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ (۲) جسے اپنے عمل سے انسان حرام بنالے ۔ مثلاً چوری کی مرغی۔ سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال۔ پاکیزہ سے مراد: صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سڑی۔ باسی اور متعفن نہ ہوگئی ہوں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا شرک ہے۔ جسے ہندو گاؤ ماتا کو مقدس سمجھتا ہے۔ تقدیس و احترام: تو صرف اللہ کے لیے ہے۔ اللہ ہی کو قربت اور اُمید کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ حلال مال سے صدقہ کرنا چاہیے جس طرح حلال کے اثرات ہیں اسی طرح حرام کے بھی اثرات ہیں حرام سے نیکی اور بُرائی کی تمیز اٹھ جاتی ہے توہم پرستی اور بے حیائی کا راستہ کھلتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر: ۶) ’’شیطان بیشک تمہارا دشمن ہے سو تم اس کو اپنا دشمن سمجھتے رہو۔‘‘ کسب حلال اور اس کی اہمیت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اے لوگو پاک مال کھاؤ) اے لوگو اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے۔ فرمایا جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا، جس کی پرورش حرام سے کی گئی ہو۔ جس نے حرام کھایا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ اس کی دعا قبول نہ ہوگی جس کا کھانا حرام پینا حرام۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱۵)