سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بھلا جو شخص (یعنی اللہ) ہر کسی کے سر پر اس کا کیا لیے کھڑا ہے ، وہ ان کو بغیر سزا دیے چھوڑ دے گا اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھرائے ہیں تو کہہ ان کے نام بتاؤ آیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو وہ زمین میں نہیں جانتا ۔ یا ظاہری باتیں بناتے ہو ؟ نہیں بلکہ کافروں کے فریب ان کے لیے سجائے گے ہیں اور وہ اللہ کی راہ سے روکے گئے ہیں ، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی ہادی نہیں (ف ١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ ہر انسان کے عمل کو جانتاہے، ہر عامل کے خیر و شر کے عمل سے باخبر ہے ۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ۔ ہر جاندار کی روزی اس کے ذمے ہے، ہر ایک کے ٹھکانے کا اسے علم ہے ہر بات اس کی کتاب میں لکھی ہوئی ہے، ظاہر باطن ہر بات کو وہ جانتاہے جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ ان صفتوں والا اللہ کیاتمہارے ان جھوٹے خداؤں جیسا ہے جو نہ سن سکیں نہ دیکھ سکیں نہ اپنے لیے کسی چیز کے مالک ہیں نہ کسی اور کے نفع و نقصان کا انھیں اختیار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ﴾ (الانعام: ۱۰۰) ’’انہوں نے اوروں کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا۔‘‘ اور ان کی عبادت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ان کے نام تو بتاؤ ان کے حالات تو بیان کرو تاکہ دنیا جان لے کہ وہ محض بے حقیقت ہیں کیا تم زمین کی ان چیزوں کی خبر اللہ کو دے رہے ہو، جنھیں وہ نہیں جانتا یعنی جن کا وجودہی نہیں ہے کہ اس لیے اگروجود ہوتا تو علم الٰہی سے باہر نہ ہوتاکیونکہ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ تم صرف اٹکل پچو باتیں بنارہے ہو۔ تم نے آپ ہی ان کے نام گھڑ لیے، انھیں نفع و نقصان کامالک قرار دے دیا ۔ یہی تمہارے بڑے کرتے رہے۔ یہ تو صرف وہم پرستی اور خواہش پروری ہے ہدایت اللہ کی طرف سے نازل ہوچکی ( قرآن کریم ) کفار کا مکر انھیں بھلا دکھائی دے رہاہے۔ وہ اپنے کفر اور اپنے شرک پر ناز کررہے ہیں دن رات اسی میں مشغول ہیں۔ راہ الٰہی اور طریقہ ہدایت سے شیطان نے ان کو روک دیاہے ۔ اور اسے اچھا جان کر اوروں کو راہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روکنے لگے ۔ رب کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو کون راہ دکھا سکتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا﴾ (المائدۃ: ۴۱) ’’جسے اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے تو اللہ سے اس کے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ﴾ (النحل: ۳۷) ’’اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو ) اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتاہے اور اس کاکوئی مدد گارنہیں ہو گا۔‘‘