لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
جنہوں نے اپنے رب کی بات مانی ان کے لیے بھلائی ہے ۔ اور جنہوں نے اس کی بات نہ مانی ، اگر ان کے پاس تمام زمین کا سارا مال بھی ہو اور اس کے اتنا ہی اور بھی ہو تو سارا ضرور اپنے فدیہ میں دے دیں ، مگر پھر بھی قبول نہ ہو ، اور وہ برا بچھونا ہے
اس آیت میں نیکوں اور بدوں کا انجام بیان ہو رہا ہے۔ دنیا کی زندگی میں ان کے لیے بھلائی یہ ہو گی کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف سے ایسی ہدایات اور احکام مل جاتے ہیں جن میں اس شخص کے دینی یا دنیوی مصالح مضمر ہوتے ہیں۔ دوسری بھلائی یہ ہوتی ہے کہ اسے قلبی اطمینان میسر آجاتا ہے۔ اور آخرت کا سلوک ان چیزوں سے زیادہ یقینی اور دائمی ہوگا۔ آسان حساب کیسے اور سخت کیسے: جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں۔ مختلف حیلوں سے ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ دنیا میں ہی ختم ہوتے رہتے ہیں حتی کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر جب وہ آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے توان کے اعمال نامے داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور تمام اچھے اور برے اعمال سے آگاہ کیا جائے گا لیکن سختی نہیں کی جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا‘‘ میں نے کہا: ’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ محض پیشی ہوگی انھیں ان کے اعمال بتا دیے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہو گئی۔ سمجھ لو وہ مارا گیا۔‘‘ (بخاری: ۶۳۳۶) پھر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان نہیں مانتے، قیامت کے دن ایسے عذابوں کو دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس ساری زمین بھر سونا ہو تو وہ اپنے فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے بلکہ اس جتنا اور بھی مگر قیامت کے دن فدیہ قبول کیا جائے گا نہ بدلہ، نہ معاوضہ۔ ان سے سخت باز پُرس ہوگی۔ ایک ایک چھلکے اور ایک ایک دانے کا حساب لیا جائے گا۔ حساب میں پورے نہ اتریں گے تو عذاب ہوگا۔ جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا جو بدترین جگہ ہوگی۔