قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
یوسف (علیہ السلام) بولا ، اسی نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی ‘ کہ میں اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھوں ‘ اور عورت کے لوگوں میں سے ایک گواہ نے یوں گواہی دی کہ اگر اس کا کرتہ آگے سے پٹھا ہے تو عورت سچی اور وہ جھوٹا ہے ۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر دھر رہی ہے اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کر دینے کے لیے فرمایا کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھیں۔ میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھیں یہاں تک کہ میراکرتا بھی پھاڑ دیا انھی کے خاندان کا کوئی سمجھ دار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا (فیصلہ کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا) اور ثبوت اور دلیل کے ساتھ ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے کرتے کو دیکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت کے جھوٹا اور مرد کے سچا ہونے میں شبہ نہیں۔